ظالم ابھی ہے فرصت توبہ ، نہ دیر کر

وہ بھی گرا نہیں ، جو گرا پھر سنبھل گیا

توبہ کیا ہے؟

توبہ کے لفظی معنی ” لوٹنے اور رجوع کرنے کے ہیں”۔

قرآن و حدیث میں توبہ اس کا نام ہے کہ آدمی اپنے پچھلے گناہ پر نادم ہو اور آئندہ اس گناہ کے پاس نہ جانے کا عزم کرے۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ ” تمام بنی آدم خطاوار ہیں اور بہترین خطاوار وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں .”۔

______

وقال اللہ تعالی: وَّاَنِ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّكُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَيۡهِ

ترجمہ :  “اپنے پروردگار سے بخشش مانگو اور اس کے آگے توبہ کرو”۔  (سورۃ ھود)

______

اس آیت میں دو لفظ استعمال ہوۓ ہیں

ہ توبہ

ہ استغفار

علماء رحمۃ اللہ علیھم فرماتے ہیں کہ استغفار کا تعلق پچھلے گناہوں سے ہوتا ہے کہ اپنے پچھلے گناہوں پر اللہ سے معافی مانگےاور توبہ اسی کا نام ہے کہ پچھلے گناہوں پر ندامت اور آئندہ کے لۓ نہ کرنے کا عزم ہو

______

توبہ کیسے کرنی چاہیۓ؟

______
وقال اللہ تعالی: يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَى اللّٰهِ تَوۡبَةً نَّصُوۡحًا

ترجمہ :  ” اے ایمان والو تم اللہ کے آگےصاف دل سے توبہ کرو “۔  (سورۃ تحریم )
______

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ توبہ میں چھ چیزیں جمع ہونی چاہیئں

ہ اپنے گذشتہ برے عمل پر ندامت۔

ہ جو فرائض و واجبات چھوڑ دیۓ تھے اس کو قضاء کرے۔

ہ کسی کا مال ظلما لیا ہو تواس کو واپس کرے۔

ہ کسی کو زبان یا ہاتھ سے ستایا ہو تو اس کی معافی مانگے۔

ہ آئندہ اس گناہ کے پاس نہ جانے کا پختہ عزم ہو۔

ہ جس طرح گناہ کرکے اس نے اپنے نفس کو اللہ کی نافرمانی میں دیکھا ہے اب وہ اپنے نفس کواطاعت کرتے ہوۓ بھی دیکھے۔

______

توبہ کرلو، جو نام ہے ندامت کا

اس چیز پر، جن کا کرنا تمھارے لیۓ حرام ہے

______

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا توبہ و استغفار

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے  بخدا میں ایک دن میں ستر بارسے زیادہ اللہ تعالی سے مغفرت اور توبہ کرتا ہوں۔

______

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار کرنا امت کی تعلیم کے لیۓ تھا

علماء رحمۃ اللہ علیھم فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار کرنا امت کی تعلیم کے لیۓ تھا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کی طرف سے مغفور ہوتے ہیں، سارے ہی گناہ معاف ہوتے ہیں جبکہ وہ معصوم ہوتے ہیں اس کے باوجود جب وہ توبہ استغفار کا اتنا اہتمام فرماتے ہیں تو امت کو کس قدر اہتمام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جو جتنا اللہ تعالی سے ڈرتا ہے اتنا ہی اس کو احساس ہوتا رہتا ہے کہ قصوروار ہوں۔

جیسے کہ ایک روایت میں آتا ہے کہ مومن اپنے گناہوں کے بارے میں یہ خیال کرتا ہے کہ گویا اس پر پہاڑ گر رہا ہے اور فاسق و فاجر یہ سمجھتا ہے کہ کوئی مکھی ناک پر بیھٹی تھی اس نے ہاتھ سے اڑا دی

____________
تمام انبیاۓ کرام کا توبہ و استغفار کرنا

______

ہ– حضرت آدم مع حضرت حوا علیھما السلام کا استغفار کرنا

“قَالَا رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا. وَاِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَـنَا وَتَرۡحَمۡنَا لَـنَكُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِيۡنَ”

ترجمہ:” دونوں نے کہا :  اے ہمارے پروردگار  ہم نے ظلم کیا اپنی جان پر اور اگر تو نہ بخشےہم کو  اور ہم پر رحم نہ فرماۓ تو ہم ضرور برباد  ہوجائیں گا”۔ (سورۃ الاعراف)
______

حضرت ابراھیم علیہ السلام کا استغفار کرناہ

“رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِىۡ وَلـِوَالِدَىَّ وَلِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ يَوۡمَ يَقُوۡمُ الۡحِسَابُ”

ترجمہ:” اے ہمارے پروردگار  مجھ کو بخش دیجیئے اور میرے ماں باپ کو اور سب مؤمنون کو جس دن قائم ہو حساب “۔ (سورۃ ابرھیم)

______

حضرت یونس علیہ السلام کا استغفار کرناہ

“لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَكَ ‌ۖ . اِنِّىۡ كُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِيۡنَ”‌

ترجمہ:” نہیں کوئی معبود آپ کے سوا، آپ  پاک ہیں بے شک میں ظلم کرنے والوں سے ہوں”۔ (سورۃ الانبیاء)

______

ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم استغفار اور وعدہ مغفرت

“وَقُلْ رَّبِّ اغۡفِرۡ وَارۡحَمۡ وَاَنۡتَ خَيۡرُ الرّٰحِمِيۡنَ”

ترجمہ:” اور کہیے کہ اے میرے پروردگار بخش دجیئے اور رحم فرمائیے اور آپ سب سے بہتر رحم فرمانے والے ہیں”۔ (سورۃ المؤمنون)

______

اپنے لیۓ استغفار کرنے کا حکم اور فضلیت

“وَسَارِعُوۡۤا اِلٰى مَغۡفِرَةٍ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ وَجَنَّةٍ”

ترجمہ:” اور دوڑو اپنے رب کی بخشش اور جنّت کی جانب”۔ (سورۃ ال عمران)

______

یہ وہ آیتیں ہیں جو سردست خیال میں آیئں ان آیات سے معلوم ہوگیا کہ استغفار و توبہ وہ چیز ہے کہ تمام انبیاء علیھم السلام کا معمول رہا۔ سب اپنی امت کو حکم کرتے آۓ، خود ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا، باوجود یہ کہ آپ پاک تھےمگر اس سے اور مرتبہ زائد ہوا۔ فرشتوں کا یہ شغل ہے۔ امت کے ہر طبقے کو اپنے لۓ اور سابقین کے لۓ اس کا حکم ہے۔ اس کے ساتھ ہی وعدہ مغفرت بھی ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی بندے کی توبہ عالم نزع طاری ہونے سے پہلے قبول کرلیتا ہے

______ 

آدمی کی توبہ قبول ہوتی رہتی ہے جب تک روح حلق تک نہ پہنچے

______

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ تعالی نے لکھا ہے کہ موت کے وقت آدمی کی دو حالتیں ہوتی ہیں۔

پہلی حالت: اس کو “حالت یاس” کہا جاتا ہے یعنی انسان ظاہری اسباب کے درجہ میں زندگی سےما یوس ہوجاتا ہے مگر اس وقت عالم برزخ وغیرہ کے حال منکشف نہیں ہوتے، اس وقت میں بالاتفاق مسلمان اور کافر دونوں کی توبہ قبول ہوتی ہے۔

دوسری حالت: اس میں عالم برزخ کے حالات اس پر منکشف ہونے شروع ہوجاتے ہیں اور اس کو فرشتے نظر آنے لگتے ہیں تو اس حالت میں اب توبہ قبول نہیں ہوگی۔

حدیث بالا میں اسی دوسری حالت کا بیان ہے۔ اس حدیث کا مفہوم قرآن مجید کی اس آیت میں بھی آیا ہے۔

______
قال اللہ تعالی: وَلَيۡسَتِ التَّوۡبَةُ لِلَّذِيۡنَ يَعۡمَلُوۡنَ السَّيِّاٰتِ‌ ۚ حَتّٰۤى اِذَا حَضَرَ اَحَدَهُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ اِنِّىۡ تُبۡتُ الۡـــٰٔنَ

ترجمہ :  ” اور ان لوگوں کی توبہ معتبر نہیں ہے جو برے کام کرتےرہتے ہیں یہاں تک کہ جب موت ان کے سامنے آ جاتی  ہے تو کہتے ہیں اب میں توبہ کرتا ہوں “۔  (سورۃ النساء )

______

اس حدیث میں ترغیب دی جارہی ہے کہ آدمی سے جب گناہ ہوجاۓ تو فوری طور سے توبہ کرلے ایسا نہ ہو کہ موت کا وقت آجاۓ پھر وہ توبہ کرے تو قبول نہ ہو۔

______

حقیقت

یہ ہے کہ بندہ کی عبدیت کا تقاضا یہ ہے کہ اوّل تو وہ جان بوجھ کر اپنے معبود کی نافرمانی اور گناہ نہ کرے اور اگر نادانی سے گناہ ہوجاۓ تو خالق کے ‍قہروغصہ سے ڈرے اور فورا توبہ کرلے۔

__________________________

آمنہ قاسم

طالبہ، عالمہ پروگرام

Share: